بے عمل لوگوں پر بھی رحمتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ :

بے عمل لوگوں پر بھی رحمتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ :


    جس حدیث ِپاک میں قیامت اور پل صراط کا بیان ہے اس کے آخر میں اللہ کے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں کو حکم فرمائے گا: ''جس کے دل میں ایک ذرّے کے برابر بھی نیکی پاؤ اسے جہنم سے نکال دو۔'' فرشتے بہت سے لوگوں کو نکال کر عرض کریں گے:''اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ ! جن کے متعلق تو نے حکم دیا اب ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا:

(4) وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:میری رحمت ہر چیز کوگھیرے ہے۔(پ9، الاعراف: 156)
    حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایاکرتے تھے :''اگر تم اس حدیثِ پاک کے متعلق میری تصدیق نہیں کرتے تو چاہو تو قرآنِ پاک کی یہ آیتِ مبارکہ پڑھ لو:

(5) اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ۚ وَ اِنۡ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا وَیُؤْتِ مِنۡ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیۡمًا ﴿40﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اللہ ایک ذرہ بھر ظلم نہیں فرماتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دونی کرتا اور اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتاہے۔ (پ5،النسآء:40)
    پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا:''فرشتوں نے شفاعت کر لی، انبیاء نے شفاعت کرلی ،اب صرف ارحم الراحمین کی ذات باقی ہے ۔'' پس وہ( اپنی شان کے مطابق) جہنم سے ایک مُٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو نکالے گا جن کاتوحید پر ایمان کے علاوہ کوئی نیک عمل نہ ہو گا، ان کاجسم کوئلہ بن چکا ہوگا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو جنت کے دروازے پر آبِ حیات کی نہر میں ڈالے گاتو وہ ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے کیچڑ سے دانہ اُگتا ہے،وہ موتیوں کی صورت میں نکالیں جائیں گے ان کی گردنوں میں سونے کے پٹے (یا ہار) ہوں
گے۔ اہلِ جنت ان کو پہچان کر کہیں گے :''یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے آزاد کردہ بندے ہیں، جن کو وہ بغیر کسی عمل اور نیکی کے جنت میں داخل کریگا۔'' ان سے کہا جائے گا :''جنت میں داخل ہو جاؤ، جو کچھ تم دیکھو گے وہ تمہارے لئے ہے۔''وہ عرض کریں گے: ''اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ ! تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا جو مخلوق میں سے کسی کو نہ دیا ۔''اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ''تمہارے لئے میرے پاس اس سے بھی افضل چیز ہے ۔ '' وہ عرض کریں گے:''اس سے افضل شئے کون سی ہے ؟''تو ارشاد ہو گا: ''میں تم سے راضی ہو گیا ہوں،اب کبھی ناراض نہ ہو ں گا۔''

(صحیح مسلم ،کتاب الایمان،باب معرفۃ طریق الرؤیۃ، الحدیث۱۸۳، ص۷۱۱)

    مروی ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اولادِ آدم میں سے ایک کروڑ دس لاکھ (1,10,00,000) کے حق میں حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شفاعت قبول فرمائے گا۔''

 (المعجم الاوسط، الحدیث۶۸۴0،ج۵،ص۱۳۸،''الف الف''بدلہ ''مائۃ الف الف'')

    حضرتِ سیِّدُنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضورنبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:''میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لئے ہے۔''حضرتِ سیِّدُنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''جنہوں نے کبیرہ  گناہوں کا ارتکاب نہیں کیا انہیں شفاعت کی کیا حاجت؟یعنی وہ شفاعت کے محتاج نہیں ۔ ''

(جامع التر مذی،ابواب صفۃالقیامۃ،باب منہ حدیث شفاعتی لاھل الکبا ئرمن امتی، الحدیث ۳۶ ۲۴،ص۱۸۹۷)

    ایک روایت میں ہے، ایک اعرابی نے عرض کی: ''یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مخلوق کا حساب کون لے گا؟'' ارشاد فرمایا:''اللہ تبارک وتعالیٰ ۔'' اس نے عرض کی:''کیا وہ خود لے گا؟'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''ہاں۔'' تو وہ اعرابی مسکرا دیا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے اس سے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو اس نے عرض کی: ''کریم جب کسی پر قدرت پاتا ہے تو معاف کر دیتا ہے،جب حساب لیتا ہے تو درگزر فرماتاہے۔'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اعرابی نے سچ کہا، جان لو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بڑا کریم کوئی نہیں، وہ سب کریموں سے بڑھ کر کریم ہے ۔''

(شعب الایمان للبیھقی،باب فی حشرالناس بعدما۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۶۲،ج۱،ص۲۴۶)

    پھر اس اعرابی نے عربی میں چند اشعار کہے، جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
    (۱)۔۔۔۔۔۔کریم کاحق جب کسی شخص کے نزدیک متعین ہو جائے تو وہ اپنی عزت کی وجہ سے اسے معاف فرما دیتا ہے۔
    (۲)۔۔۔۔۔۔وہ نافرمان سے درگزر کر کے اس کے گناہ بخش دیتا ہے حالانکہ اس کا گناہ گار اورمجرم ہوناثابت ہے ۔
     مشہور حدیثِ پاک ہے، ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کائنات کی تخلیق سے قبل یہ طے کر لیا تھاکہ میر ی رحمت میرے غضب پر غالب ہو گی۔''

(احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجاء،بیان دواء الرجاء۔۔۔۔۔۔الخ،ج۴،ص۱۸۴)
    روایت میں ہے، ''جب قیامت کادن ہوگا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گاجس میں لکھا ہو گا، میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی اورمیں اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن (یعنی سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ) ہوں پھر وہ اہلِ جنت کے برابر (جہنمیوں کو)دوزخ سے نکال دے گا۔''

(احیاء علوم الدین،کتاب الذکر والموت ومابعدھا،سعۃ رحمۃ اللہ علی سبیل التفاؤل بذلک،ج۵،ص۳۱۲)

    مروی ہے :''ایک اعرابی نے حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اس آیتِ مبارکہ:

(6)وَکُنۡتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنْہَا ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا دیا۔(پ4،ال عمران :103)
    کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو عرض کی :''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !اگررحمن ورحیم عَزَّوَجَلَّ انہیں جہنم میں گرانے کا ارادہ فرما لیتا تو پھر انہیں اس میں گرنے سے نہ بچاتا ۔'' حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے ارشاد فرمایا:''اعرابی کی اس بات کو پلے باندھ لو حالانکہ یہ فقیہہ نہیں۔''

(احیاء علوم الدین،کتاب الذکر والموت ومابعدھا،سعۃ رحمۃ اللہ علی سبیل التفاؤل بذلک،ج۵،ص۳۱۳)

    منقول ہے:''قیامت کے دن جب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندے کی پردہ پوشی چاہے گا اور اسے سب کے سامنے رسوا نہ کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو اس کا گناہوں بھرا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گا۔ وہ بندہ اس کی وجہ سے خوف زدہ ہو گا جو اس کے نامۂ اعمال میں ہو گاکیونکہ اسے معلوم ہو گا کہ اس کے گنا ہ بہت زیادہ ہیں۔ چنانچہ، نامۂ اعمال میں جہاں گناہ لکھے ہوں گے وہاں وہ آواز آہستہ کر لے گا اور اپنے دل میں کہے گا:''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میری تو ایک نیکی بھی نہیں۔''جبکہ لوگ کہیں گے :''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اس بندے کے نامۂ اعمال میں تو ایک  گناہ بھی نہیں۔'' جب وہ آہستہ آواز میں پڑھ کر فارغ ہو گاتواللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا:''اے میرے بندے!تیری نیکیوں کو میں نے اپنی مخلوق پر ظاہر کیا اور تیر ی برائیوں کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائی ،اے میرے فرشتو! اس کو میرے عفوو کرم سے جنت میں لے جاؤ۔''
    حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بارگاہ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں اپنی امت کے  گناہوں کے متعلق دعا کی اور عرض کی :''یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! تو ان کا حساب میرے حوالے کر دے تا کہ ان کی برائیوں پر میرے علاوہ کوئی اور آگاہ نہ ہو۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وحی فرمائی :''یہ تیری امت ہے، میں اس پر تجھ سے زیادہ رحم فرمانے والا ہو ں ،میں ان کا حساب کسی کے حوالے نہیں کروں گا تا کہ میرے علاوہ کوئی ان کی برائیاں نہ دیکھے ۔''

(احیاء علوم الدین ،کتاب الخوف والرجاء ،بیان دواء الرجاء۔۔۔۔۔۔الخ،ج۴،ص۱۸۱)
    حضرتِ سیِّدُنا معاویہ بن قرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''سورۃُ النساء کی یہ چار آیات اس امت کے لئے دُنْیَا وَمَا فِیْھَا (یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے)سے بہتر ہیں :

(7) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ

ترجمۂ کنزالایمان:بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جوکچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتاہے۔ (پ5،النسآء:48)

(8) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5،النسآء:۶4)

(9) اِنۡ تَجْتَنِبُوۡا کَبٰٓئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنۡکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمۡ مُّدْخَلًا کَرِیۡمًا ﴿31﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اگر بچتے رہوکبیرہ  گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت ہے تو تمہارے اور گناہ ہم بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔(پ5، النسآء:31)

(10) وَمَنۡ یَّعْمَلْ سُوۡٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿110﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور جو کوئی بُرائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔(پ5،النسآء:110)

(شعب الایمان للبیھقی،باب فی معالجۃ کل ذنب بالتوبۃ،الحدیث۷۱۴۱،ج۵،ص۴۲۵،بتغیرٍ۔المعجم الکبیر،الحدیث۹0۶۹،ج۹،ص۲۲0)

    حضرتِ سیِّدُنا ابو غالب علیہ رحمۃ اللہ الغالب فرماتے ہیں: ''میں ابو امامہ کے پاس شام کے وقت جایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے پڑوس میں ایک مریض کے پاس گیا تو و ہ مریض کو جھڑ ک رہے تھے اور فرما رہے تھے : ''افسوس ہے تجھ پر، اے اپنی جان پر ظلم کرنے والے! کیا میں نے تجھے بھلائی کا حکم نہ دیا اوربرائی سے نہ روکا تھا؟تو وہ نوجوان بولا:''اے میرے محترم! اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے میری ماں کے سپرد کر دے اور میرا معاملہ اسی کے حوالے فرما دے تو میری ماں میرے ساتھ کیسا معاملہ فرمائے گی؟'' تو انہوں نے جواب دیا:''وہ تجھے جنت میں داخل کر دے گی ۔''تواس نے عرض کی :''اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھ پر میری والدہ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔'' پھر اس کی روح قَفَسِ عُنْصُرِی سے پرواز کر گئی۔ چنانچہ، جب اس کے چچا نے اس کے ساتھ قبر میں اُتر کر اُسے دفن کیا اور قبر کو برابر کر دیا تو اس نے گھبرا کرچیخ ماری۔ میں نے پوچھا: ''کیا ہوا؟'' توکہنے لگا:''اس کی قبر وسیع کر دی گئی اور نور سے بھر دی گئی ہے۔''

 (شعب الایمان للبیھقی،باب فی معالجۃکل ذنب با لتو بۃ،الحدیث۷۱۱۵،ج۵،ص۴۱۷)

    حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں قیدیوں کو لایا گیا۔ ان میں ایک عورت بھاگ رہی تھی۔ اس نے ایک قیدی بچے کو اٹھا
کر اپنے سینے سے لگایا اور اسے دودھ پلانے لگی۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''اس عورت کو دیکھ کر بتاؤ! کیا یہ اپنے بچے کو جہنم میں ڈال دے گی ؟ ''عرض کی گئی:''نہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! کبھی نہیں۔''تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم وکرم کرتا ہے جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے ۔''

(صحیح مسلم،کتاب التو بۃ،باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۷۵۴،ص۱۱۵۵)

    اے میرے پيارے اسلامی بھائیو!جب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں پر ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے تو پھر بندہ اس کی اطاعت کی طرف آگے کیوں نہیں بڑھتا اور اس کی نافرمانی سے منہ کیوں نہیں موڑتا اوراپنے آگے ایسی چیز کیوں نہیں بھیجتا جس کا نفع اسی کی طرف لوٹے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرما نِ عالیشان ہے:

(11) وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنْ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللہِ ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں کے لیے جو بھلائی آگے بھیجوگے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے۔(پ1،البقرہ:110)
    حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر بن سلیم صواف فرماتے ہیں، ہم حضرتِ سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ا س شام حاضر ہوئے جس شام ان کا انتقال ہوا تھا۔ ہم نے عرض کی:''اے ابو عبداللہ ! آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟''ارشاد فرمایا: ''میں نہیں جانتاکہ تمہیں کیا کہوں، ہاں! تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عفو وکرم دیکھتے رہوگے جب تک تمہارا حساب نہیں ہوگا۔''ہم ان کی روح قبض ہونے تک وہیں ان کے پاس رہے۔''

(الموسوعۃ للامام ابن ابی الدنیا،کتاب حسن الظن باللہ، الحدیث۸۵، ج۱، ص۹۵)

Post a Comment

Previous Post Next Post