سیِّدُناوحشی اور ان کے دوستوں کا قبولِ اسلام:

سیِّدُناوحشی اور ان کے دوستوں کا قبولِ اسلام:


    حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وحشی کی طرف ایک قاصد بھیجا جو اس کو اسلام کی دعوت دے۔ جب وحشی کو پیغام ملا تو اس نے عرض کی : ''اے محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم)! آپ کیسے مجھے دعوتِ اسلام دے رہے ہیں ؟ حالانکہ آپ تو فرماتے ہیں کہ ''جس نے کسی جان کو قتل کیا یا شریک ٹھہرایا یا زنا کیا قیامت کے دن اس کے لئے عذاب دُ  گنا کر دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔''میں نے تو یہ سب کام کئے ہیں،کیا میرے لئے کوئی رخصت ہے؟'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی:  ''اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ترجمۂ کنزالایمان:مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے۔''(پ۱۹،الفرقان:۷0)
    حضور نبئ پاک، صاحب ِ لولاک، سیّاح افلاک صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے بذریعۂ قاصد یہ آیتِ مبارکہ وحشی اور اس کے دوستوں کی طرف بھیجی تو اس نے عرض کی: ''یہ شرط تو بہت سخت ہے،ممکن ہے میں اس پر عمل نہ کر سکوں، کیا اس کے علاوہ (کوئی رخصت )ہے؟''تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ ِمبارکہ نازل فرمائی: ''اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جوکچھ ہے جسے چاہے معا ف فرما دیتاہے۔''(۱)(پ۵،النسآء:۴۸)
    یہ آیتِ مبارکہ جب وحشی کی جانب بھیجی گئی تو اس نے پھر کہا:''ابھی یہ شبہ باقی ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری مغفرت بھی ہو گی یا نہیں؟کیا اس کے علاوہ ( کوئی رخصت) ہے؟''تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی : قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾     یہ آیت وحشی اور اس کے دوستوں کی طرف بھیجی گئی تو وحشی نے کہا:''ہاں! یہ(ہماری بخشش کی گارنٹی) ہے۔'' چنانچہ، وہ اوراس کے دوست حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی :''یا رسو ل اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم !کیا یہ حکم خاص ان لوگوں کے لئے ہے یاتمام مسلمانوں کے لئے؟'' ارشاد فرمایا:''یہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔''

(المعجم الکبیر،الحدیث۱۱۴۸0،ج۱۱،ص۱۵۷)

    اے میرے پيارے اسلامی بھائیو!اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مؤمن کو جہنم کاعذاب دینے اور ہمیشہ اس میں ٹھہرانے کا ارادہ
فرمایا ہوتا تو اپنی معرفت و توحید کبھی اس کے دل میں نہ ڈالتا، کیونکہ وہ خود ارشاد فرماتاہے:

(3) لَا یَصْلٰىہَاۤ اِلَّا الْاَشْقَی ۙ﴿15﴾الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ16﴾

ترجمۂ کنزالایمان:نہ جائے گا اس میں مگربڑا بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔(پ30،الیل:15،16)
    حضرتِ سیِّدُنا قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :''ہمیں بتایاگیا ہے کہ کچھ لوگوں نے زمانۂ جاہلیت میں بہت  گناہ کئے تھے۔ جب اسلام آیاتو ان کو یہ خوف تھا کہ ان کی توبہ قبول نہ ہوگی۔چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس آیتِ مبارکہ میں اُن کو مخاطب فرمایا:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿53﴾

ترجمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتاہے ،بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ24،الزمر:53)

(تفسیر طبری،سورۃ الزمر،تحت الآیۃ ۵۳،الحدیث ۳0۱۷۸،ج۱۱،ص۱۵)

    حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:''اگر تم اتنی خطائیں کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر توبہ کرو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ضرورتمہاری توبہ قبول فرما ئے گا۔''

    (سنن ابن ماجۃ،ابواب الزھد،باب ذکر التوبۃ،الحدیث۴۲۴۸،ص۲۷۳۵)

    سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ''اے میرے بندو! تم رات د ن گناہوں میں بسر کرتے ہواور میں گناہوں کو بخشتا رہتا ہوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ پس تم مجھ سے بخشش طلب کرتے رہو میں تمہیں بخشتا رہوں گا۔''

 (صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم الظلم ،الحدیث۲۵۷۷،ص۱۱۲۹)

    حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبئ کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ارشادِ رحمت بنیاد ہے:''بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ رات کے وقت اپنا دستِ قدرت پھیلا دیتاہے تاکہ دن میں  گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمائے اور دن میں اپنا دستِ قدرت پھیلا دیتا ہے تاکہ رات کے وقت  گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمائے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔''

    (صحیح مسلم، کتاب التو بۃ،باب قبول التو بۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۷۵۹،ص۱۱۵۶)

    حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے پیارے حبیب ، حبیب لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:''اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم  گناہ نہ کرو اور بخشش کا سوال نہ کرو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ضرور تمہاری جگہ ایسی قوم لے آئے گاجو  گناہ کر کے بخشش کا سوال کریں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی مغفرت فرما دے گا ۔''

(صحیح مسلم ،کتاب التو بہ،باب سقوط الذنوب۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۷۴۹، ص۱۱۵۴)
    حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،میں نے حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ''اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے مغفرت کاسوال کرے تو میں تیری مغفرت فرما دوں گااوراس کی ذرہ برابر پرواہ نہ کروں گا۔ اے ابن آدم!اگر تو زمین کے برابر خطائیں لے کر میری بارگاہ میں حاضر ہو تو میں اس کے مطابق تیری بخشش فرما دوں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔''

  (جامع التر مذی،کتاب الدعوات،باب الحدیث القدسی ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث3540،ص2016)

    حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظیم الشان ہے : ''میری امت رحم کی ہوئی امت ہے،اس کا عذاب دنیا میں ہی زلزلوں اور فتنوں کے ذریعے ہو جائے گا۔ جب قیامت کادن ہوگاتومیرے ہر امتی کو ایک کتابی(یعنی عیسائی یا یہودی) دیا جائے گا اور کہا جائے گاکہ یہ تیری طرف سے جہنم میں جائے گا۔''

 (سنن ابی داؤد، کتاب الفتن،باب مایرجی فی القتل،الحدیث۴۲۷۸ ،ص ۱۵۳۴۔المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث ابی موسی الاشعری،الحدیث ۱۹۶۷۸، ج۷، ص۱۵۶،بتغیرٍ)

    نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' بروزِ قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے سامنے خوش ہوکر تجلی فرمائے گااور ارشاد فرمائے گا:''خوش ہوجاؤ،اے مسلمانوں کے گروہ!تم میں سے ہر ایک کی جگہ جہنم میں یہودی یا نصرانی کو ڈالاجائے گا۔''

(احیاء علوم الدین،کتاب ذکرالموت ومابعدہ، الشطر الثانی،سعۃ رحمۃ اللہ علی سبیل التفاؤل بذلک،ج۵،ص۳۱۲)

    حضرتِ سیِّدُنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کائنات کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل امید کے ایک کاغذپر ایک معاہدہ لکھا پھر اس کو عرش پر رکھا اور ندا دی :''اے امتِ محمدیہ!بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی، میں تمہارے سوال کرنے سے پہلے ہی تمہیں عطاکردوں گااور مغفرت کاسوال کرنے سے قبل ہی تمہیں بخش دوں گا،تم میں جو مجھ سے ملے اور یہ گواہی دیتاہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم) میرے بندے اور رسول ہیں تو میں اسے جنت میں داخل کر دوں گا۔''

   (فردوس الاخبارللدیلمی،باب الواو،فصل فی تفسیرالقرآن،الحدیث۷۴0۲،ج۲،ص۴0۳)

    شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ جنت نشان ہے:'' جب قیامت کادن ہوگاتو عرش کے نیچے سے ایک منادی ندا کریگا: ''اے امتِ محمدیہ!سن! میرا جو حق تیرے ذمہ تھا وہ میں نے معاف کردیا، اب ایک دوسرے کو معاف کرکے میری رحمت سے
جنت میں داخل ہوجاؤ۔'

' (احیاء علوم الدین،کتاب ذکرالموت ومابعدہ،الشطر الثانی،سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۱۳)

    حضرتِ سیِّدُنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سو رحمتیں ہیں اس نے ایک رحمت اہلِ دنیا کی طرف اُتاری تو وہ انہیں ان کی موت تک کافی ہو گئی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس رحمت کوقیامت تک روکے رکھے گا پھر قیامت کے دن اسے نناوے(99) رحمتوں میں ملاکر اپنے اولیاء کرام علیہم الرحمۃ اور اطاعت گزاروں کے لئے سو(100) رحمتیں مکمل فرما دے گا ۔''

(المسند للامام احمدبن حنبل ، مسند ابی ھریرۃ ،الحدیث ۱0۶۷۵ ، ج ۳ ، ص ۵۹۴،بتغیرٍ)

    امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو روتا ہوا دیکھ کر عرض گزار ہوئے : ''یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!آپ کیوں رو رہے ہیں؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے جواب دیا: ''میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حیا آتی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو عذاب دے جو اسلام میں بوڑھا ہوا ہو،پھر اسلام میں بوڑھے ہونے والے کوحیا کیوں نہیں آتی کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتا ہے۔''

(کشف الخفاء ،حرف الھمزۃ مع النون ،الحدیث۷۴۱،ج۱،ص۲۱۷،مختصرًا)

    حضرتِ سیِّدُنا احمد بن سہل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضر تِ سیِّدُنا یحیی بن اکثم علیہ رحمۃاللہ الاکرم کو دیکھ کر پوچھا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟'' توانہوں نے جواب دیا کہ مجھے بلاکر ارشاد فرمایا: '' اے بوڑھے! میں نے عرض کی :''یااللہ عَزَّوَجَلَّ !ہمیں حضرتِ سیِّدُنا عبدالرزاق نے حضرتِ سیِّدُنا معمر کے حوالے سے ،انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا زہری کے حوالے سے، انہوں نے حضرتِ سیِّدُناعروہ کے حوالے سے اور انہوں نے اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے یہ بات بتائی کہ حضورنبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے بیان فرمایا:'' حضرتِ جبرائیلِ امین علیہ الصلٰوۃوالسلام نے مجھے بتایاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے:''مجھے حیا آتی ہے کہ میں کسی سفید بالوں والے کو عذاب دوں جواسلام میں بوڑھا ہوا ہو۔''اور میں تو بہت عمر رسیدہ ہوں۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:''عبدالرزاق نے سچ کہا،معمر نے سچ کہا،زہری نے صحیح کہا،عروہ بھی سچا ہے، عائشہ نے بھی ٹھیک کہا، میرے نبئ کریم نے بھی سچ فرمایا، جبرائیل نے بھی سچ بتایااور میں نے بھی سچ فرمایا ہے۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے دائیں طرف جنت میں جانے کاحکم فرمایا۔''

    (تاریخ بغداد،الرقم۷۴۸۹یحیی بن اکثم، ج۱۴، ص۲0۶،بدون عائشۃرضی اللہ تعالی عنہا۔کشف الخفائ،حرف الھمزۃ مع النون،تحت الحدیث۷۴۱، ج۱، ص۲۱۷)
    حضرتِ سیِّدُنا سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبئ کریم، ر ءوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سو رحمتیں پیدا فرمائیں ۔ ہر رحمت زمین و آسمان کے درمیان تہہ در تہہ ر کھ دی گئی ہے۔ ان میں سے ایک رحمت زمین پر نازل ہوئی۔ اسی سے والدہ اپنی اولاد پر، وحشی درندے اور پرندے ایک دوسرے پر مہربان ہو تے ہیں، یہاں تک کہ گھوڑا اپنا پاؤں اپنے بچے سے دور کر لیتا ہے کہ کہیں اسے چوٹ نہ لگ جائے۔ جب قیامت کادن ہو گاتو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس رحمت کودوسری ننانوے (99) رحمتوں میں ملاکر سو مکمل فرما دے گااور بروزِ قیامت اس سے اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔''

    (صحیح مسلم،کتاب التوبۃ،باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۵۳/۲۷۵۲، ص۱۱۵۵)

    میرے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بڑھ کرکوئی رحیم و کریم نہیں۔ اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرو۔

1۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: '' معنٰی یہ ہیں کہ جو کفر پر مرے اس کی بخشش نہیں ،اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے اور جس نے کفر نہ کیا ہووہ خواہ کتنا ہی گنہگار، مرتکبِ کبائر ہو اور بے توبہ بھی مر جائے تو اُس کے لئے خلود نہیں ،اِس کی مغفرت اللہ کی مشیّت میں ہے، چاہے معاف فرمائے یا اُس کے گناہوں پر عذاب کرے ۔پھر اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے ۔اس آیت میں یہود کو ایمان کی ترغیب ہے اور اس پر بھی دلالت ہے کہ یہود پر عُرفِ شرع میں مُشرِک کا اطلاق درست ہے۔''

Post a Comment

Previous Post Next Post